کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں ۔۔۔ ___ وائلن : استاد رئیس احمد خان 🎼🎻
کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں ۔۔۔
___
وائلن : استاد رئیس احمد خان 🎼🎻
کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی واللہ تم اٹھ کے آ نہ سکے
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں
بے وجہ نہ جانے کیوں ضد ہے ان کو شب فرقت والوں سے
وہ رات بڑھا دینے کے لیے گیسو کو سنوارا کرتے ہیں
پونچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو
سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں
کچھ حسن و عشق میں فرق نہیں ہے بھی تو فقط رسوائی کا
تم ہو کہ گوارا کر نہ سکے ہم ہیں کہ گوارا کرتے ہیں
تاروں کی بہاروں میں بھی قمرؔ تم افسردہ سے رہتے ہو
پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں میں ہنس ہنس کے گزارا کرتے ہیں
___
قمر جلالوی
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا....
کیا غم خوار نے رسوا لگے آگ اس محبت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا رازداں کیوں ہو ؟
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو ؟
___
مرزا غالبؔ 🖤🎼
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے ۔۔۔۔ 💜✨
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے ۔۔۔۔ 💜✨
___
“An early-morning walk is a blessing for the whole day.” (Wallace Stergner)
میرا دل یہ پکارے آجا، ____ منہ چھپا کے مری زندگی رو رہی دن ڈھلا بھی نہیں شام کیوں ہو رہی ° 🎼✨🖤
میرا دل یہ پکارے آجا،
____
منہ چھپا کے مری زندگی رو رہی
دن ڈھلا بھی نہیں شام کیوں ہو رہی
°
🎼✨🖤
تُو کہیں بھی رہے سر پر تیرے اِلزام تو ہے تیرے ہاتھوں کی لکِیروں میں میرا نام تو ہے
تُو کہیں بھی رہے سر پر تیرے اِلزام تو ہے
تیرے ہاتھوں کی لکِیروں میں میرا نام تو ہے
مُجھ کو تُو اپنا بنا یا نہ بنا تیری خوشی
تُو زمانے میں میرے نام سے بدنام تو ہے
میرے حصے میں کوئی جام نہ آئے نہ سہی
تیری محفل میں میرے نام کوئی شام تو ہے
دیکھ کر لوگ مجھے نام تیرا لیتے ہیں
اس پہ میں خُوش ہوں محبت کا یہ انجام تو ہے
وہ سِتمگر ہی سہی دیکھ کے اس کو صابرؔ
شُکر، اِس دلِ بیمار کو آرام تو ہے
صابر جلال آبادی
موروثی دکھ کبھی نہیں مرتے....
موروثی دکھ کبھی نہیں مرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاھین کاظمی
موروثی دکھ کبھی نہیں مرتے
وہ دیمک زدہ پڑچھتیوں پر دھری پیتل کی منقش گا گروں
کارنس پر دھرے رنگیں کانچ کے گلاسوں
یومِ عاشور پر اکٹھی کی گئی مٹی کی ڈولیوں اور ٹھوٹھیوں
ٹاہلی پر بندھے رسی کے جھولوں اور
پساروں میں بچھے بڑے پلنگوں کےرنگین پایوں میں چھپےرہتے ہیں
اندھیری کوٹھڑیوں میں دھرے
بڑے جستی صندوقوں میں بھرے اجلے لحافوں
ان سے اٹھتی فینائل کی خوشبو
نواری چارپائیوں پر بچھی سوتی چادروں پر
ریشمی دھاگوں سے کاڑھی گئی پھول پتیوں
کروشیے سے بُنی پیلی پڑتی سفید جھالر کے پھندنوں
مٹی سے لِپی ٹھنڈی دیواروں پر ٹنگےبوڑھے فریموں اور
آنگن میں آگے بیری کے پیڑوں پر
لٹکے رہتے ہیں
پرانی چھتوں کا سارا بوجھ سہارتے دیوداری
شہتیروں میں لٹکے آہنی کنڈوں اور
ان کے درمیان سے جھانکتی چکنی ٹائلوں
بڑی بڑی منقش رحلوں ، کھجوری پنکھیوں اورمصلوں
لکڑی کے بھاری دروازوں اور ان کے ساتھ بنے
دھویں سے سیاہ پڑتے ہوئے طاقچوں میں دھرے
تیل سے بھرے مٹی کے دیوں میں سلگتے رہتے ہیں
سحری میں ابھرنے والے نقاروں کی آوازوں
رات کے اندھیرے میں چولہے میں" پھونکنی" سے
آگ کو تیز کرنے کی سعی
مغرب کے وقت کھانے کی تھالی پر
" درود" دلوانے والی مدہم آوازوں
ڈھلتے سایوں کے ساتھ لالٹین کے گول شیشوں کو چمکانے اور
س
سچ پوچھئے تو اس کی ہمیں خود خبر نہیں موسم بدل گیا کہ بدلنے لگے ہیں ہم ن.م
چھتری لگا کے گھر سے نکلنے لگے ہیں ہم
اب کتنی احتیاط سے چلنے لگے ہیں ہم
اس درجہ ہوشیار تو پہلے کبھی نہ تھے
اب کیوں قدم قدم پہ سنبھلنے لگے ہیں ہم
ہو جاتے ہیں اداس کہ جب دوپہر کے بعد
سورج پکارتا ہے کہ ڈھلنے لگے ہیں ہم
ایسا نہیں کہ برف کی مانند ہوں مگر
لگتا ہے یوں کہ جیسے پگھلنے لگے ہیں ہم
آئینہ دیکھنے کی ضرورت نہ تھی کوئی
خود جانتے تھے ہم کہ بدلنے لگے ہیں ہم
اس کا یقین آج بھلا کس کو آئے گا
اک دھیمی دھیمی آنچ میں جلنے لگے ہیں ہم
سچ پوچھئے تو اس کی ہمیں خود خبر نہیں
موسم بدل گیا کہ بدلنے لگے ہیں ہم
ن.م
وہی پلکوں کا جھپکنا ، وہی جادو تیرے سارے انداز چُرا لائی ہے خوشبو تیرے __ نذیر قیصر🎵🖤
وہی پلکوں کا جھپکنا ، وہی جادو تیرے
سارے انداز چُرا لائی ہے خوشبو تیرے
__
نذیر قیصر🎵🖤
سائیں ! تو اپنی چلم سے تھوڑی سی آگ دے دے میں تیری اگر بتی ہوں اور تیری درگاہ پر مجھے ایک گھڑی جلنا ہے۔ ۔ ۔ امرتا پریتم 💜✨
سائیں!تو اپنی چلم سے
تھوڑی سی آگ دے دے
میں تیری اگر بتی ہوں
اور تیری درگاہ پر مجھے
ایک گھڑی جلنا ہے۔ ۔ ۔
یہ تیری محبت تھی
جو اس پیکر میں ڈھلی
ا ب پیکرسلگے گا
تو ایک دھواں سا اٹھے گا
دھوئیں کا لرزاں بدن
آہستہ سے کہے گا
جو بھی ہوا بہتی ہے
درگاہ سے گذرتی ہے
تیری سانسوں کو چھوتی ہے
سائیں!آج مجھے
اس ہوا میں ملنا ہے
سائیں!تو اپنی چلم سے
تھوڑی سی آگ دے دے
میں تیری اگر بتی ہوں
اور تیری درگاہ پر مجھے
ایک گھڑی جلنا ہے۔ ۔ ۔
جب بتی سلگ جا ئے گی
ہلکی سی مہک آئے گی
اور پھر میری ہستی
راکھ ہو کر
تیرے قدم چھوئے گی
اسے تیری درگاہ کی
مٹی میں ملنا ہے۔ ۔ ۔
سائیں!تو اپنی چلم سے
تھوڑی سی آگ دے دے
میں تیری اگر بتی ہوں
اور تیری درگاہ پر مجھے
ایک گھڑی جلنا ہے۔ ۔ ۔
امرتا پریتم
میرے نیناں ساون بھادوں پھر بھی میرا من پیاسا ۔۔۔۔ 🎼
میرے نیناں ساون بھادوں پھر بھی میرا من پیاسا ۔۔۔۔ 🎼
آشیانے کی بات کرتے ہو دل جلانے کی بات کرتے ہو ساری دنیا کے رنج و غم دے کر مسکرانے کی بات کرتے ہو جاوید قریشی ✨🎶
آشیانے کی بات کرتے ہو
دل جلانے کی بات کرتے ہو
ساری دنیا کے رنج و غم دے کر
مسکرانے کی بات کرتے ہو
ہم کو اپنی خبر نہیں یارو
تم زمانے کی بات کرتے ہو
ذکر میرا سنا تو چڑھ کے کہا
کس دوانے کی بات کرتے ہو
حادثہ تھا گزر گیا ہوگا
کس کے جانے کی بات کرتے ہو
جاوید قریشی
وہ جب یاد آئے بہت یاد آئے.... استاد رئیس احمد خان
وہ جب یاد آئے، بہت یاد آئے
غم زندگی کے اندھیرے میں ہم نے
چراغِ محبت جلائے بجھائے
آہٹیں جاگ اٹھیں راستے ہنس دیے
تھام کر دل اٹھے ہم کسی کے لیے
کئی بار ایسا بھی دھوکا ہوا ہے
چلے آ رہے ہیں وہ نظریں جھکائے
دل سلگنے لگا اشک بہنے لگے
جانے کیا کیا ہمیں لوگ کہنے لگے
مگر روتے روتے ہنسی آ گئی ہے
خیالوں میں آ کے وہ جب مسکرائے
وہ جدا کیا ہوئے زندگی کھو گئی
شمع جلتی رہی روشنی کھو گئی
بہت کوششیں کی مگر دل نہ بہلا
کئی ساز چھیڑے کئی گیت گائے
غم زندگی کے اندھیرے میں ہم نے
چراغِ محبت جلائے بجھائے
اسد بھوپالی