03/06/2024
جو اپنے عشق میں حد سے گزر نہیں سکتا
میں اس کے واسطے سولی پہ مر نہیں سکتا
پڑے ہیں راہ میں دشمن ہزار پھندے ہیں
مجھے ہے شوقِ سفر، میں ٹھہر نہیں سکتا
فریب، جھوٹ، مکر کر رہا ہے یاروں سے
جو سچ کہے تو کہیں سے گزر نہیں سکتا
چلا ہے چھوڑ کے جب سے وہ اپنی بستی کو
سبھی اداس ہیں کوئی سنور نہیں سکتا
ہے اس کا سامنا اب وقت کے یزیدوں سے
وہ اپنی بات سے لیکن مکر نہیں سکتا
کبھی نہ چاہتے بھی آستیں جھٹک ڈالو
کہ جس کے سانپ ہوں دشمن، ابھر نہیں سکتا
عطا کو لاکھ ہو مشکل کبھی نہ گھبرایا
خدا کا نام لیا ہے تو ڈر نہیں سکتا
عطاءالرحمٰن