11/06/2024
صبح تین بجے اٹھ کر موٹر چلا کر ٹینکی بھرنے کے بعد
مسجد کی لاٸٹیں آن کیں اور
اذان دے کر صفاٸی شروع کردی
جماعت کروا کر بچوں کو پڑھانا شروع کردیا
سب گھروں کو چلے گٸے اور وہ ابھی مسجد میں ہے
کیونکہ مسجد کے تین ، چار کام کروانے ہیں
کچھ چیزیں ٹھیک کروانے والی ہیں اور کچھ نٸی خریدنے والی ہیں
ظہر کا وقت سر پر آن پہنچا اور وہ ابھی مارکیٹ میں ہی ہے
مسجد کا دروازہ حاجی نے کھولا اور اتنی دیر میں امام صاحب بھی آگٸے
حاجی صاحب نے کھڑے کھڑے دو چار باتیں سنا دیں کہ مسجد کا دروازہ تو ٹاٸم پر کھلنا چاہیے
وہ بیچارہ وضاحت دے رہا تھا لیکن حاجی صاحب سننے کو تیار نہیں تھے
ظہر پڑھاٸی اور آرام کرنا چاہا لیکن فون آیا کہ چودھری صاحب کے آخری پھوپھا چودہ سال پہلے شراب پیتے ہوٸے مر گٸے تھے ان کے لیے ختم پڑھنا ہے
یہ بیچارہ پھر اٹھا اور دوڑ لگا دی
مولوی صاحب نے ختم پڑھا تو چودھری صاحب نے کہا کہ قاری صاحب روٹی گھر پہنچ جاٸے گی
بڑے بڑے چوہدریوں میں بیٹھ کر یہ مسکین کیسے روٹی کھا سکتا ہے
اتنی دیر میں عصر کا ٹاٸم آ پہنچا
عصر پڑھاٸی تو دل چاہا بچوں کو گھمانے لے جاوں
لیکن
مسجد سے نکلتے ہی ہمساٸے صاحب نے پکڑ لیا
اخے مولوی صاحب کہاں جا رہے ہیں
ہر وقت سیر سپاٹے پر ہی نکلے ہوٸے ہوتے ہیں
مغرب کے بعد پھر بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا ہے
عشإ کی سترہ رکعتیں پڑھنے کے بعد گھر کے دروازہ پر پہنچے ہی تھے کہ
پیر صاحب کی کال آگٸی
کہ بڑے حضرت جی نے مولوی صاحب کو یاد کیا ہے
اس مسجد میں بڑے حضرت جی ہی مولوی صاحب کو لے کر آٸے تھے
مولوی صاحب پہنچے تو
بڑے حضرت جی جن کے چوبیس گھنٹے اے سی میں اور دیسی خوارکیں کھا کھا کر چہرہ نورانی وجدانی ہوا پڑا تھا کہنے لگے
تم مولوی لوگ سارا دن ویلے رہتے ہو ، کھاتے پیتے بھی بہت اچھا ہو لیکن
تمہارے مر جھاٸے ہوٸے چہروں کی سمجھ نہیں آتی
مولوی صاحب اپنی نیند کی کمی اور دن بھر کی بھاگ دوڑ بیان کرنے ہی والے تھے کہ
مرید صادق بول اٹھا
بڑے حضرت جی یہ ظاہری عبادتیں کرتے ہیں
اصل عبادت تو آپ جیسے ولی اللہ کرتے ہیں
جیسے تیسے مولوی صاحب گھر کو پہنچے ، کھانا کھایا
سو گٸے
لیکن جسمانی تھکاوٹ اس قدر تھی کہ یوں لگا کہ آنکھیں بند کرکے کھول لی ہیں
اور پھر چل سو چل
اس مزدور کی تنخواہ جمع کرتے ہوٸے محلے کے چوہڑے چمار بھی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ
مولوی صاحب کے کون سے اتنے اخراجات ہیں
ان کا گزارہ ہوجاتا ہے
دس بارہ ہزار بہت ہیں۔“
خدا را ان کی قدر کریں یہ آپ کے ہر دکھ سکھ میں آپ کے ساتھ ہوتے ہیں تو آپ کو بھی ان کی قدر کرنی چاہیے ۔