11/09/2022
مستقبل کا پرندہ ماضی کے آئینے میں ۔
پولٹری فارمنگ نے کسانوں کی معاشی زندگی ھی میں انقلاب نہیں برپا کیا بلکہ اس انقلاب سے سینکڑوں لوگوں کے معاشی حالات بہتر ھوئے ۔ برائلر جدید دور کی ایک ایسی شاندار ترین ایجاد یا دریافت تھی جس نے پوری دنیا پر اپنا اثر ڈالا ۔ ابھی یہ مستقبل کا پرندہ اپنا سفر جاری رکھے ھوئے ھے ۔ تو اس کا ماضی کیا تھا ۔؟
پاکستان میں عام طور پر اسے مشینی چوزہ اور پتہ نہیں کیا کیا کہا جاتا ھے ۔ مگر آج تک کسی پولٹری کی تنظیم یا متعلقہ ادارے نے عوام کو بتانے کی کوشش ھی نہیں کی کہ یہ تو خود عوام کے جوش وجذبے کیوجہ سے تھا ۔ کسی ایک سائنسدان یا ریسرچ سنٹر کا کارنامہ نہیں تھا بلکہ ایک ملک کی پروٹین ضروریات پوری کرنے کیلیے محکمہ زراعت اور ایک فوڈ کمپنی کے حاضر دماغوں کے دماغ کا ایک کارنامہ تھا جسے عوام نے کر دکھایا ۔
ویسے اسے ھم حکومت فوڈ کمپنی اور عوام کی مشترکہ کاوش کہ سکتے ھے ۔
چلیں دوستوں آپ کو سناتے ھے برائلر کے آغاز کی دلچسپ کہانی
1946 میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر امریکی حکومت کو محاذ پر گائے بکرے کا گوشت پہنچانا مشکل ھوتا نظر آتا تھا تو دوسری طرف ملک میں بچوں کی پیدائش میں تیزی (برتھ بلوم) کیوجہ سے بچوں کیلیے پروٹین کی زیادہ مقدار کے حصول نے منصوبہ سازوں کو مجبور کیا کہ کچھ ایسا ھو کہ ھر شخص کی پلیٹ میں ایک مرغی ھو اور سب خوش ھو ۔مگر مرغی وھی چار پانچ ماہ کے بعد ھی تیار ھونے والی تھی ۔تو امریکی محکمہ زراعت ایک فوڈ کمپنی نے ملکر ایک انعامی مقابلہ کروایا ۔ جس کا نام چکن آف ٹو مارو (کل کی مرغی ) رکھا گیا ۔اس میں محکمہ زراعت اور کمپنی کی خواھش تھی کہ ایسی کسان ایسی مرغی تیار کرے جس کی چھاتی اور رانیں موٹی تازہ ھو ۔ اور پیداواری لاگت کم ھو ۔ اس سلسلے میں ایک دستاویزی فلم بھی جاری کی گئی اور کمپنی نے دس ھزار ڈالر انعام کا اعلان بھی کیا ۔
اس سلسلے میں ریاستی سطح پر مقابلے شروع کیے گئے ۔اور جیوری نے مستقبل کے پرندہ کی جن خصوصیات پر ونر کا اعلان کرنا تھا وہ خصوصیات تھی کہ مستقبل کا پرندہ کا یکساں سائز اور زیادہ وزن اور کم سے کم لاگت ۔
ھر امیدوار 270 انڈے لیکر آتے تھے ۔ اور ان انڈوں سے چوزے نکلوا کر گورنمنٹ فارم پر افزائش کی جاتی تھی ۔ دوران پرورش ان کی خوب حفاظت اور جانچ کی جاتی تھی ۔ اور آخر میں سب کو ذبح کر کے قابل فروخت حالت میں جائزہ لیا جاتا تھا ۔
1946 سے 1947 تک یہ مقابلے امریکہ کی مختلف ریاستوں میں ھوتے رھے
25 ریاستوں کے 40 فاتحین کو مرکزی مقابلے کیلیے منتخب کیا گیا ۔ آخری مرحلہ مارچ 1948 میں ھوا ۔
اس مقابلے کے کے فاتح کیلیفورنیا کے چارلس اور کینتھ وینٹرس نے جیتا ۔ انہوں نے ریڈ کورنش اور نیو ھمیشائر ریڈ نامی نسلوں کے میلاپ سے یہ مقابلہ ون کیا ۔
دوسرا انعام ھیری سیگلو کے اربریکر کو ملا ۔
پہلے انعام کیوجہ اس نسل کی خوراک جلدی ھضم کرنے کی صلاحیت اور کم پیداواری لاگت تھی ۔
اس ملک گیر مقابلے نے کسانوں اور کاروباری لوگوں کو چکن آف ٹو مارو کیطرف بڑی شدت سے راغب کیا ۔
آج موجودہ نسلیں پیٹرسن وینٹرس کوب ھائبرڈ آر بریکرز پلچ ھے ۔ وینٹرس کو امریکہ میں برائلر کا جد امجد تصور کیا جاتا ھے
مگر ان کے جملہ حقوق کے قوانین میں اتنی پیچیدگیاں ڈالی گئی ھے کہ نیا سرمایہ کار کو ان کے حقوق کسی صورت نہیں مل سکتے ۔
یہ مقابلے مزید تین سال جاری رھے برائلر کو مزید بڑا بنانے کے ساتھ ساتھ زیادہ پروٹین مکی اور سویابین جیسی خوراک کا بڑا دخل ھے ۔
جینیاتی تبدیلی اور بہترین پروٹین والی خوراک کے ساتھ ساتھ مطلوبہ درجہ حرارت نے برائلر کو آج اپنی انتہاؤں پر پہنچایا تو ھے مگر لاکھوں لوگوں کے روزگار کا زریعہ بھی بنا ۔
کسانوں کو جہاں خوشحالی نصیب ھوئی وھی ایک عام صارف کی بہترین پروٹین سے بھرپور گوشت تک رسائی ممکن ھوئی ۔
1957 میں 34 گرام کا ایک دن کا چوزہ آج 46 گرام تک جا پہنچا ھے تو وھی اٹھائیس دن پر اس کا وزن 316 گرام ھوا کرتا تھا آج یہی وزن 1500گرام ھوتا ھے ۔ وھی یہ برائلر اس وقت 56 دن میں 900 گرام ھوتا تھا آج 4500 گرام ھوتا ھے ۔
مستقبل کی مرغی یا بڑے پرندے کی اس بڑی کہانی نے دنیا میں بڑی تبدیلیاں تو کی ھے مگر وھی کچھ پروپیگنڈے کی یلغار کا سامنا بھی کیا ھے ۔
لیکن یہ کہانی ھمیں بتاتی ھے کہ کیسے حکومت اور عوام ملکر کہانی کو تبدیل کر سکتے ھے ۔
بشکریہ ۔عمران رانا