01/09/2024
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبوتر کی آنکھ کے بلیک تل کی کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
++++++++تحریر: استاد خان محمد بارا+++++++
اسلام علیکم ۔۔۔
امید ہے سب دوست خیریت سے ہونگے انشاء اللہ۔۔
کبوتر کی آنکھ کےکالے تل کو لیکر مارکیٹ میں بے شمار کہانیاں برسوں سے سینا بہ سینا اکثر سننے کو ملتی رہتی ہیں مجال ہے کہ ایک کہانی دوسری کہانی کے ساتھ میل کھاتی ہو اور بعض میرے دوست اسی تل کی کہانی کو مافوق الفطرت چیز بنا کر پیش کرتے ہیں۔
میں کوئی کبوتر پروری کا عالم نہیں ہوں ایک طالب علم ہوں اور بس جو تھوڑا بہت سیکھا ہوا ہے اسی کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ گزارشات ہیں جو دوستوں کے حضور پیش کرتا ہوں ۔
امید ہے دوست فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میری اس ناقص سی کوشش کی حوصلہ افزائی کریں گے شکریہ۔
1۔۔ کبوتر کی آنکھ باقی جانداروں کی آنکھوں کی طرح دیکھنے کے لیے ہی اللہ کریم نے بنائی ہوئی ہے۔
2۔۔ کبوتر کی آنکھ میں تل کا چھوٹا ہونا یا بڑا ہونا کبوتر کی پرواز کو کم کرنے یا بڑھانے میں کسی قسم کا کوئی بھی کردار نہیں رکھتا ۔
3۔۔ آنکھ کا تل گول ہو یا بیضوی شکل میں ہو تب بھی پرواز میں کسی بھی قسم کی کم بیشی نہیں ہوتی۔
یہ تین پوائینٹ ہیں جن پر آج کی بات کو واضع کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
1۔۔ کیا کبوتر کی انکھ صرف اور صرف دیکھنے کے لیے ہوتی ہےایسا نہیں ہے۔
کبوتروں میں آنکھ دیکھنے کے علاوہ نسلوں کی پہچان میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کبوتر واحد جانور ہے جس کے آنکھ کے رنگ باقی جانوروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ جن رنگوں کو دیکھ کر کبوتر کی نسل کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور ان رنگوں اور رنگوں کی آمیزش کو دیکھ کر قابل اساتزہ ان میں موجود نسلوں کی مکسنگ کا بھی ادراک کرتے ہیں آیا کہ کبوتر کی آنکھ اس میں موجود دوسرے کبوتروں کی نسلوں کی چغلی بھی کھاتی ہے ہو سکتا ہے کہ باقی جانوروں کی نسلوں میں اس طرح کا کوئی کونسیپٹ ہو لیکن میں صرف کبوتروں کے بارے میں ہی نااص سی معلومات رکھتا ہوں۔ اس لیے کوئی حتمی بات نہیں کر سکتا۔
ایک چھوٹی سی مثال سے دلیل دینے کی کوشش کرتا ہوں کہ اگر اصل حالت میں موجود قصوری اور سیالکوٹی کبوتروں کو آپس میں کراس دیا جائے تو ان سے نکلنے والے بچوں کی آنکھ کی رنگ کے شیڈ نا تو قصوری رہیں گے اور نا ہی سیالکوٹی رہیں گے۔ اس طرح دو نسلوں کے کراس سے حاصل کیے ہوئے کبوتروں کی آنکھ کے کلر ماں باپ سے مختلف ہو جائیں گے۔ اور ایک نئے کلر اور نئے شیڈ رکھنے والی آنکھ وجود میں آ جائے گی۔ جس کی اپنی ایک خاص پہچان ہو گی۔
اور جن شوقین دوستوں نے سچے من کے ساتھ اس شوق کو سیکھا ہوا ہے وہ کبوتر کی انکھ کے رنگ دیکھ کر ان میں مکس کیے گئے کبوتر اور خاص الخاص کبوتر کا بلڈ کس معیار پر ہے پہچان لیتے ہیں۔
میری ناقص عقل کے مطابق جن شوقین دوستوں کو کبوتر کی آنکھ دیکھ کر اس کے بلڈ کے معیار کا ادراک نہیں ہوتا وہ کبھی بھی اچھا اور تابند جوڑا لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اور اس فن پر عبور حاصل کرنا بھی اتنا آسان کام نہیں ہے برسوں کی ریاضت کے بعد بلڈ کا معیار ماپنے کی فیلنگز آتی ہیں۔
اس پر مزید سیر حاصل گفتگو بھی کی جا سکتی ہے لیکن ہمارا آج کا موضوع یہ نہیں ہے اس لیے موضوع کی طرف ہی پلٹنا بہتر ہے۔
2۔۔۔ اکثر دوست کبوتر کی آنکھ کے تل پر اپنی مختلف رائے دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ باتیں ہمیشہ متضاد ہی رہ جاتی ہیں۔
کبوتر کی آنکھ کے تل کا باریک ہونا یا سائز میں بڑا ہونے سے کبوتر کی پرواز کو نا کم کرتا ہے اور نا ہی اس کے سائز کی کمی بیشی سے پرواز بڑھتی ہے۔
اگر انسانی انکھ کا مشاہدہ کیا جائے تو جب ہماری آنکھ تیز دھوپ یا کسی قسم کی چمک کو برداشت نہیں کر پاتی تو ہم تیز چمک سے بچنے کے لیے آنکھوں کے آگے یا تو اپنا ہاتھ کر لیتے ہیں یہ چہرہ گما کر دوسری طرف کر لیتے ہیں تاکہ دھوپ کی رسائی انکھوں تک نا ہو سکے۔ اسی طرح اگر ہم تیز دھوپ میں چل رہے ہوں اور دھوپ کی شدت آنکھوں کی برداشت سے باہر ہو جائے تو ہم رنگین چشما پہن لیتے ہیں یا کسی ٹوپی یا کپڑے کا شیڈ آنکھوں کے اوپر کر دیتے ہیں تاکہ دھوپ سے آنکھوں کو بچایا جا سکے۔
لیکن کبوتر ایسا نہیں کر سکتا چونکہ کبوتر سخت دھوپ میں اڑنے کے لیے بنا ہوا ہے اس لیے اس کی آنکھوں نے سارا دن دھوپ کی سختی کو جھیلنا ہوتا ہے اس لیے قدرت نے کبوتر کی آنکھوں کو انسانوں کے مقابلے میں مختلف اور ایک خاص قسم کے اعلی نظام سے نوازہ ہوا ہے۔ انسان کی آنکھ کا تل سائز میں چھوٹا بڑا نہیں ہو سکتا لیکن کبوتر کی آنکھ کا کالا تل سکڑ بھی سکتا ہے اور سائز میں پھیل بھی سکتا ہے۔ بہت ہی کم ایسے کبوتر ہوتے ہیں جو دھوپ اور چھاوں میں آنکھ کے کالے تل کو ایک ہی سائز میں رکھتے ہوں یعنی وہ کبوتر نا ہی تل کو سکیڑتے ہیں اور نا ہی پھیلاتے ہیں۔ اور ایسے کبوتروں کی آنکھ کا ڈائل سائز میں چھوٹا ہوتا ہے بڑے سائز کا تل رکھنے والے کبوتروں میں یہ خاص خاصیت نہیں ہوتی۔ اس لیے ایسے کبوتر شوقین زیادہ پسند کرتے ہیں جو تل کو دھوپ اور چھاوں میں تقریبا یکساں رکھتے ہیں۔
شوقین دوستوں نے نوٹ کیا ہو گا کہ جب کبوتر کی آنکھ کو دھوپ میں کیا جاتا ہے تو اکثریت میں کبوتر انکھ کے تل کو سکیڑ لیتے ہیں اور چھاوں میں کرنے پر وہی کالا تل کسی حد تک پھیل جاتا ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے ؟؟؟
بس اسی پوائینٹ کو سمجھنا سب سے ضروری ہے۔۔
کبوتر دھوپ اور چھاوں میں آنکھ کے تل کو سرکولیٹ کیوں کرتا ہے ؟
جدید سائنس کی جدید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کبوتر کی آنکھ کا کالا تل سائز میں بڑا ہو تو دھوپ اس کو شدت سے محسوس ہوتی ہے جیسے ہی وہ آنکھ کے تل کو سائز میں چھوٹا کر لیتا ہے تو دھوپ کی شدت محسوس ہونے میں بہت کمی ہو جاتی ہے ورنہ ذرہ سوچیں جس طرح ہماری آنکھ دھوپ کی شدت کو ایک منٹ بھی برداشت نہیں کر پاتی اور یہی حال اگر کبوتر کا ہو تو اڑنا تو دور کی بات وہ سورج کے مخالف منہہ کر کے ہی بھاگ جائے۔
لیکن بات یہی پر ہی ختم نہیں ہوتی۔
کبوتر کی آنکھ کے تل کے دھوپ سے بچنے کے علاوہ بھی مقاصد ہیں جن کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔
دھوپ میں کبوتر آنکھ کے تل کو سکیڑ کر رکھتا ہے جس سے گرمی کی شدت کو کم کرتا ہے ایسا کرنے کی وجہ سے تیز گرمی کو آنکھوں کے راستے جسم میں داخل ہونے سے بھی روکتا ہے جس سے کبوتر دوران پرواز اپنا ٹمپریچر بھی بیلنس رکھنے کی کوشش میں بھی کامیاب ہوتا ہے لیکن جیسے ہی آسمان پر بادل چھا جاتے ہیں تو وہ سکڑا ہوا تل سائز میں پھیل جاتا ہے۔
لیکن ان سے کچھ مسائل بھی جنم لیتے ہیں جو دلائل سے سمجھانے کی کوشش کرونگا۔
جن کبوتروں کی آنکھ کے تل کا ڈائل نارمل نہیں ہوتا اور عام حالت میں بھی کبوتر پکڑ کر دیکھنے میں تل بڑا نظر آتا یے ایسے کبوتر دوران پرواز زیادہ مسائل کا شکار بھی ہوتے رہتے ہیں دوران پرواز اکثر بادل اتنے گہرے ہو جاتے ہیں کہ دن کو بھی شام کا سمع محسوس ہونے لگتا ہے ایسے حالات میں بڑے سائز کے تل کے کبوتر روشنی کی کمی کے باعث ڈائل کو مزید بڑا کر لیتے ہیں جس سے ان کا اکثر فوکس آوٹ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بڑے سائز کا ڈائل رکھنے والے کبوتر زیادہ ضائع ہونے کا خدشہ رہتا ہے شام ہونے پر بھی ایسے کبوتروں کو اندھیرے میں گھر بٹھانا بہت مشکل ہوتا ہے ۔
دوستوں کے مشاہدے میں آیا ہو گا کہ جن کبوتروں کی انکھ کے تل کا ڈائل دن میں بڑا نظر آتا ہو ان کبوتروں کو ہلکا سا اندھیرا ہونے پر دیکھا جائے تو ان کی آ کھ کا کالا تک 70 فیصد تک آنکھ میں پھیل جاتا ہے اور جن کبوتروں کی آنکھ کا تل دن میں سائز میں چھوٹا نظر آتا ہے شام ہونے پر ان کی آنکھ کا تل ڈائل میں 35 سے 40 فیصد تک آنکھ کو کور کرتا ہے۔ یعنی چھوٹے ڈائل کا تل رکھنے والا کبوتر بڑے ڈائل کا تل رکھنے والے کبوتر سے کم روشنی میں تیس فیصد کم ڈائل کا سائز بڑھاتا ہے اور یہی 30 فیصد اس کا پلس پوائینٹ ہے۔ جو کبوتر کی واپسی اور پرواز کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک اور مسئلہ بھی درپیش رہتا ہے وہ یہ کہ اکثر دیکھنے میں آیا ہو گا کہ جن کبوتروں کی آنکھ کے تل کا ڈائل بڑا ہوتا ہے وہ دھوپ میں ڈائل کو سکیڑ کر بہت چھوٹا نہیں کر پاتے اسی لیے ایسے کبوتر تیز دھوپ میں گرمی کی شدت کو جسم میں داخل ہونے سے پوری طرح روک نہیں پاتے جس سے ان کا باڈی ٹمپریچر بہت جلد اوور ہیٹ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے کبوتر بہت کم پرواز پر آ جاتا ہے ۔نرم دھوپ والے موسم میں ایسے کبوتر آسانی سے شام تک اڑتے ہیں اور جیسے دھوپ کی شدت اپنی پیک پر آتی ہے تو ایسے کبوتر اول تو اڑنا ہی چھوڑ دیتے ہیں اور اگر اڑتے بھی ہیں تو جلدی واپسی کر لیتے ہیں یا پھر بھاگ جاتے ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ بڑے ڈائل کا تل رکھنے والے کبوتر سخت گرمی کے موسم میں میں نے اڑتے ہوئے آج تک نہیں دیکھے۔
اگر کسی شوقین دوست نے دیکھے ہوں تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔
3۔۔۔کبوتر کی آنکھ کا تل بیضوی بھی ہو تو کبوتر لمبی پرواز دے سکتا ہے لیکن شرائط وہی لاگو ہونگی کہ بیضوی بھی ہو ڈائل کا سائز اپنی مقررہ حد میں ہو ورنہ اس کے ساتھ بھی وہی مسائل فائٹ کریں گے جو بڑے سائز کے تل کے کبوتروں کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔
تل کسی بھی قسم کا ہو اس کا بلندی پر جا کر اڑنا یا کم بلندی پر جا کر اڑنا محض جھوٹ ہے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے زیادہ بلندی پر جانے والے کبوتر اپنے بلڈ میں اور جسمانی ساخت اور اپنے علاقے کے موسم کے اعتبار سے خاص پروں کے مالک ہوتے ہیں تب بلندی تک پہنچتے کی صلاحخت حاصل کر پاتے ہیں ورنہ ان خصوصیات سے فارغ کبوتر کبھی بھی اوور ہائیٹ پر جا کر پرواز نہیں کر سکتا۔
یہ ایک علیحدہ سبجیکٹ ہے اس پر زندگی رہی تو پھر کبھی بات کریں گے مضمون نا چاہتے ہوئے بھی کافی لمبا ہو گیا ہے اس لیے اسے یہیں پر اختتام پزیر کرتے ہیں ۔
اگر میری یہ کاوش آپ کو اچھی لگے تو لائک اور شئیر ضرور کیا کریں تاکہ کسی اور شوقین دوست کا بھی بھلا ہو سکے۔
فقط۔۔
حقیر پرتفسیر۔۔
استاد خان محمد بارا فرام لاہور۔۔